Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر12

"زبرین!" نتاشہ کے لب آہستگی سے پھڑپھڑائے تھے جبکہ نظر اسکی یونہی ساکت تھی،جھٹکا اتنا برا لگا تھا اسے کہ وہ یہ بھی نہ سمجھ سکی کہ وہ ظالم سیاد ابھی اسکے کتنا نزدیک آچکا تھا،ہوش تو تب آیا جب زبرین نے اسکی کان کی لُو کو اپنے دانتوں میں لے کر دبایا تھا،وہ سسک کر دور ہونے لگی مگر وہ اسکی نازک کمر پر اپنا ایک بازو حائل کرکے نتاشہ کو مکمل اپنے سینے سے لگالیا۔ "دھ۔۔دھو۔۔۔دھوکہ۔۔۔۔دیا۔۔۔! آااپ۔۔۔نے۔۔۔مجھ۔۔۔مجھے اتن۔۔اتنا بڑا۔۔۔دھوکہ۔۔!" بھیگے لہجے میں ہکلاکر بولتے ہوئے وہ تڑپ کر اسکے سینے پر ہاتھ رکھے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی،جبکہ زبرین تمسخر اڑاتی نظروں سے اسکا آنسوؤں سے بھیگا سرخ چہرہ دیکھ رہا تھا۔ "دھوکہ نہیں دیا ڈارلنگ۔۔۔۔میں نے تو تمہیں ٹریپ کیا تھا۔۔۔۔اینڈ یو نو۔۔پہلے مجھے لگا کہ یہ ٹاسک تھوووڑا سا مشکل ہوگا کیونکہ مقابل طاہر علوی کی "شاطر" بیٹی جو ٹہری پر میں فرسٹ ٹائم غلط نکلا۔۔۔میں بھول گیا تھا کہ لڑکیاں چاہے جتنی بھی شاطر ہوں۔۔۔اس محبت کے معاملے میں پگھل ہی جاتی ہیں۔۔۔۔اور تمہیں بےوقوف بنانا تو میرے لیے کافی آسان نکلا۔۔۔۔" اسکے ایک ایک نقش کو دیکھتے ہوئے زبرین نے سفاکی سے مسکراتے ہوئے کہا، "می۔۔۔میں۔۔۔محبت کرتی ہوں۔۔۔آپ سے۔۔۔" ظالم سیاد کے قید میں اس بےبس پنچھی نے دھوکہ کھانے کے بعد بھی وہی اعتراف کیا،جس پر زبرین کا قہقہہ بےساختہ تھا،وہ جیسے محضوظ ہورہا تھا اسکے تڑپتے لہجے سے،پھر نتاشہ کی آنکھوں میں دیکھ کر اس نے اجنبیت سے پوچھا "محبت!۔۔۔یہ کیا ہوتی ہے ڈارلنگ۔۔۔" اسکے کٹیلے اور انجان لہجے پر نتاشہ کا دل خون کے آنسو رویا تھا،یہ دیکھنا ہی سوہانِ روح تھا کہ جسے اتنا چاہا اس انسان کی نظر میں یہ سب صرف ایک ٹریپ تھا،یعنی کہ اسکی محبت کی کوئی اہمیت نہیں تھی مقابل کی نظروں میں،وہ بغور اسکی کالی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی،اس آس میں کہ شاید۔۔۔۔شاید زرا سی شناسائی دکھ جائے ان میں،پر نہیں مقابل کی آنکھیں صرف اجنبیت کی عکاسی کررہی تھیں۔ "کیوں کیا یہ سب؟" بلکل خالی لہجے میں نتاشہ نے پوچھا،آنکھیں صرف اس ظالم کے چہرے کا طواف کررہی تھیں،اسکی حد سے زیادہ سخت گرفت سے خود کو چھڑوانے کی کوشش بھی اب ترک کردی تھی نتاشہ نے، "یہ پھر کبھی بتاؤں گا ڈارلنگ۔۔۔۔فلحال تم سے ابھی انویسٹیگیشن میں جو پوچھا جائے صرف اسی کا جواب دینا۔۔۔اوکے میری جان۔۔۔" اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے زبرین نے اسے بچوں کی طرح سمجھایا ساتھ ہی اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہوا دور ہوا،نتاشہ لڑکھڑا کر گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی تھی،دل میں اٹھتے درد سے سانس رکنے لگی تھی،وہ کیسے اس کے دل کے ساتھ اتنا بڑا کھیل کھیل سکتا تھا،وہ روئی تھی،پھر روئی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی،رونے کی وجہ پہلے بھی وہی شخص تھا اور اب بھی،پہلے وہ جسکی موت کی وجہ سے روئی تھی اب وہ اسی انسان کی بیوفائی پر آنسو بہارہی تھی،جبکہ زبرین نے اسکا یوں تڑپ کر رونا دیکھ کوفت سے آنکھیں گھومائیں پھر اسے یونہی روتا چھوڑ اسکے برابر سے ہوتا ہوا باہر نکلا،اپنا ماسک اب اس نے اتار کر دور پھینک دیا تھا، مس ہما جو اسکے کہنے پر گیٹ سے باہر کھڑی تھی،زبرین کے باہر آنے پر وہ الرٹ ہوئیں،اسکا چہرہ دیکھ کر وہ حیران نہیں ہوئیں تھی کیونکہ انکی ٹیم میں تیمور کے علاوہ سبھی کو اسکا پلین معلوم تھا۔ "سنو۔۔۔۔اس لڑکی سے معلوم کرو کہ لاکر کا پاسورڈ کیا ہے۔۔۔اگر نہ بتائے تو ٹورچر سیل میں ہی خاطر مدارت کرنا اسکی۔۔۔۔امکان ہیں پھر زبان کھولے۔۔۔۔" زبرین نے سنجیدگی سے انہیں ہدایات دیں جس پر مس ہما نے اثبات میں سر ہلایا "رُکیں۔۔۔۔ادیان۔۔۔" نتاشہ جو اندر بیٹھی اس کی بےوفائی پر ماتم کناں تھی اچانک اسے پکارتے ہوئے باہر آئی۔ "مجھے آپ سے۔۔۔بات کرنی۔۔۔ہے۔۔۔آپ نے ایسا۔۔۔کیوں کیا۔۔۔" وہ بھاگتے ہوئے اسکے سامنے آکر بھرائی ہوئی آواز استفسار کرنے لگی تو زبرین نے ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی پھر مس ہما کو مخاطب کیا۔ "لے جاؤ اسے اندر۔۔۔" اسے ناگواری سے دیکھتے ہوئے زبرین نے حقارت زدہ لہجے میں کہا جس پر مس ہما نے طنزیہ مسکراہٹ نتاشہ کی بکھری حالت پر اچھالی ساتھ ہی اسکا بازو جکڑ کر زبردستی اسے اندر لے جانے لگیں۔ "نہیں۔۔۔چھوڑیں مجھے۔۔۔ادیان مجھے بتائیں۔۔۔کیو۔۔۔کیوں کیا آپ نے یہ سب۔۔۔کیوں دھوکہ دیا مجھے۔۔" وہ مسلسل تڑپتے ہوئے بآواز بول رہی تھی جبکہ زبرین نے بےزاریت سے اسے مس ہما کے ساتھ گھسیٹ کر اندر جاتے دیکھا پھر مڑ کر کمپیوٹر روم میں جانے لگا۔ "ادیااان۔۔۔" اسکی یہ بےرخی دیکھ نتاشہ اذیت سے چیخی تھی مگر تب تک مس ہما نے ٹورچر سیل کا گیٹ دھاڑ سے بند کیا،وہ بےبسی سے وہی گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اپنا سر جکڑ گئی،آخر کس گناہ کی سزا دے گیا تھا وہ ظالم اُسے،بلند آواز میں روتے ہوئے اسکا نازک وجود بری طرح لرز رہا تھا،پر اچانک نتاشہ کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی جب ایک کاری ضرب اسکی پشت پر لگی،وہ منہ کے بل ٹھنڈے ماربل پر گری تھی،پِیٹ پر جلن یوں محسوس ہورہی تھی جیسے چمڑی اُدھڑ گئی ہو،ابھی اسی تکلیف سے اسکی یہ حالت ہوئی کہ ایک اور ضرب اسکے کمر پر لگی تھی اب کے نتاشہ کی جان نکلنے لگی تھی،درد بڑھنے پر اس نے لب سختی سے بھینچے اوپر کی طرف دیکھا جہاں ہُما اپنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیے تمسخر زدہ سا مسکرارہی تھی،نتاشہ کو اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ گھٹنوں کے بل جھکی تھی پھر اسی ڈنڈے کو نتاشہ کی تھوڑی پر رکھ کر اسکا چہرہ اوپر کیا۔ "سر نے مجھ سے کہا کہ پہلے سوال کروں۔۔۔اور اگر تُو جواب نہ دے تو پھر تجھے ماروں پر میں یہ نہیں کروں گی۔۔۔تیرے باپ نے جو کچھ اب تک شریف گھرانوں کی لڑکیوں کے ساتھ کیا ہے۔۔۔۔ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے میں تیری خاطر کروں گی بعد میں سوالات۔۔۔بہت رہ لی تُو اپنے باپ کے حرام پیسوں پر۔۔۔اب تھوڑی یہاں کی ہوا بھی کھالے۔۔۔" انکی سخت لہجے میں کی گئی تمام باتوں کو سن کر نتاشہ نے آنکھیں پھیلائے نفی میں سر ہلایا،ہما طنزیہ انداز میں مسکراکر اٹھی تھی،اسے وہ ڈنڈا سہلاتے دیکھ نتاشہ بوکھلاکر پیچھے سرکنے لگی،کچھ ہی دیر میں ٹورچر سیل نتاشہ کی دردناک چیخوں سے گونجنے لگا تھا،دوسری طرف کمپیوٹر روم میں بیٹھا زبرین محضوظ ہوتا ہوا نتاشہ کو ہما سے بےدردی سے پِٹتا دیکھ رہا تھا،ہر ایک ضرب پر وہ جتنا تڑپ کر چیختے ہوئے رو رہی تھی اس طرف وہ ظالم اتنا ہی قہقہہ لگا کر ہنس رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج رات وہ یمنا سے اس کام کا پوچھنے گیا تھا جسکے بارے میں اس نے ادیان سے آفس میں بات کی تھی پر نتاشہ کے اغواء سمیت اور بھی کئی مسئلوں میں پھنسے رہنے کی وجہ سے یمنا اسکے ساتھ نہ آسکی البتہ اس جگہ کا ایڈریس اس نے زین کو دے دیا تھا،اور ابھی وہ ایک بہت بڑی اور خوبصورت فیکٹری کے سامنے کھڑا تھا، اس کے مین گیٹ پر ایک آدمی جو کہ اسے دیکھتے ہوئے فون پر کسی سے بات کررہا تھا اب کال رکھ کر زین کو اشارے سے اپنے پاس بلایا، "اندر چلو۔۔۔" پاس آنے پر اس آدمی نے سپاٹ لہجے میں زین سے کہا ساتھ ہی اندر چلاگیا۔ اندر کا ماحول کافی پُر شور اور مصروفانہ تھا،مشینوں کی آواز سمیت ہر ورکر اپنے کام میں لگا تھا،وہ آدمی زین کو لیے سیدھا کونے میں بنے ایک کمرے میں گیا،یہ کمرہ کافی کھنڈر سا تھا،جو فیکٹری کے کباڑ سے آدھا بھرا تھا،زین ہر ایک چیز کو اپنی تیز نظروں میں اتار رہا تھا،اس کمرے کے بیچ میں ایک ڈرم رکھا تھا جسے اس آدمی نے برابر میں سرکایا اسکے نیچے ایک بوسیدہ سا تختہ لگا تھا،اس نے وہ تختہ اٹھایا تو نیچے سیڑھیاں بنی تھیں،زین کو اشارہ کر کے وہ آدمی نیچے گیا،اسی کے پیچھے زین بھی نیچے اترا،یہ فیکٹری کا تہ خانہ تھا،اوپر کے بنسبت نیچے تھوڑا کم شور تھا پر دونوں شور مختلف تھے،اوپر جہاں مشینوں کا شور تھا تو نیچے یہاں کئی لڑکیوں کے یک بیک رونے کی آواز کا شور،وہ آدمی اب زین کو لیے ایک گیٹ کے پاس آیا،پھر جھک کر اس گیٹ کا لوک کھولنے لگا تب تک زین نے اپنی نظریں چاروں طرف دوڑائیں تھیں،وہاں پر اور بھی دو کمرے تھے، "آجاؤ۔۔۔" اس آدمی کی آواز پر زین اسکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اندر داخل ہوا،پر وہاں کے منظر نے زین کو جبڑے بھنچنے پر مجبور کردیا،کافی تعداد میں لڑکیاں خراب ملگجے سی حالت میں ایک دوسرے کے پیچھے چھپتے ہوئے ان دونوں کو خوف سے دیکھ رہی تھیں،ڈر سے چند لڑکیوں کے منہ سے نکلتی چیخ پر زین نے اپنی مٹھیاں بھینچی اس نے ایک نظر اس آدمی کو دیکھا جس کا چہرہ پہلے کی طرح سپاٹ نہیں تھا بلکہ اب وہ حوس بھری نظروں سے ان لڑکیوں کو دیکھ کر مسکرارہا تھا،زین ابھی اس آدمی کو ناگواری سے ہی دیکھ رہا تھا جب اسے اپنے وجیہہ چہرے پر کسی کی تیز نظروں کی تپش محسوس ہوئی،اس نے ناسمجھی سے گردن موڑ کر ان لڑکیوں کی سمت دیکھا،کونے۔۔۔۔بلکل کونے میں ایک کم عمر چھوٹی سی لڑکی ان لڑکیوں کے جُھرمٹ میں چھپ کر مسلسل اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھ رہی تھی،یہ کہنا غلط نہ تھا کہ وہ وہاں پر سبھی سے الگ اور حسین تھی،اسکی آنکھوں میں بھی وہیں خوف تھا جو باقی لڑکیوں کی آنکھوں میں تھا،زین کی سرد نظریں خود پر پاکر اِزہا جھٹکے سے پیچھے ہٹی اور اپنے سامنے کھڑی لڑکی کے مکمل پیچھے ہوگئی،دل بری طرح دھڑکا تھا مقابل کی سرد نظروں پر،زین کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ضرور اس نازک کم سن لڑکی پر اپنا دل ہار بیٹھتا پر یہاں مقابل زین ذوالفقار آفندی تھا جو پہلے ہی اپنا دل اس گیم کے دوران کسی کو دے چکا تھا اور وہ "کسی" نتاشہ علوی تھی،زین نے وہاں سے ناگواری سے نگاہ ہٹائی۔ "کسی کو لینا چاہو آج رات کے لیے۔۔۔۔تو لے سکتے ہو۔۔۔" اس آدمی نے خباثت سے ہنستے ہوئے زین سے کہا جس پر وہ بمشکل ہی اپنا غصہ کنٹرول کرپایا "کام کیا ہے؟" اس آدمی کی بات ان سنی کرتے ہوئے زین نے سرد لہجے میں پوچھا "کام یہی ہے کہ اس مہینے کے آخر میں یہ لڑکیاں اسمگل کرنی ہے۔۔۔۔ابھی ایک خفیہ ایجنٹ کی نظر ہم پر ہے جسکی وجہ سے ان لڑکیوں کو بندرگاہ تک لے جانا تھوڑا مشکل ہے پر کیونکہ طاہر علوی نے تمہیں اس کام کے لیے منتخب کیا ہے تو کام ہوشیاری سے کرنا۔۔۔۔۔ایجنٹس کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہیے۔۔۔" اب وہ آدمی سنجیدگی سے اسے سمجھایا تھا۔ "ابھی اگر تمہیں کوئی لڑکی چاہیے تو لے جاسکتے ہو اپنے ساتھ پر کل واپس کرجانا۔۔۔" آخری میں اس آدمی نے پھر زین کو وہی آفر کی جس پر وہ ایک نظر اس پر ڈالتا ہوا وہاں سے باہر نکلا تھا،مگر وہ اتنا بھی انجان نہ تھا کہ پشت پر پھر اس لڑکی کی نظروں کی تپش محسوس نہ کرسکا ہو،اسکے جانے کے بعد وہ آدمی بھی کندھے اچکاتے ہوئے وہاں سے نکلا اور باہر آتے ہی گیٹ لوک کردیا،دوسری طرف اندر ازہا کو وہ آدمی اب تک کہ سبھی آدمیوں سے تھوڑا مختلف لگا تھا اور اسے مختلف اسکی نظروں نے بنایا تھا،اب تک ازہا نے یہاں پر آنے جانے والے ہر آدمی کی نظر میں سبھی لڑکیوں کے لیے حوس دیکھی تھی پر زین کی سرد نظریں۔۔۔۔ان میں حوس کا نام و نشان نہیں تھا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "مطلب میں ہوں گدھا۔۔۔۔میں ہوں نفسیاتی۔۔۔۔" ابھی تیمور اس عمارت میں آیا تھا پر زبرین کو بنا ماسک کے دیکھ وہ بری طرح چکرایا،تبھی اسکی ٹیم کے ایک افسر نے تیمور کو زبرین کے پلین کے بارے میں بتایا،اور اب وہ کھڑا کلس کر خود ہی کو کوس رہا تھا۔ "سر۔۔۔۔ایک بار تو مجھ پر بھروسہ کیا ہوتا آپ نے۔۔۔۔میں۔۔۔میجر تیمور۔۔۔گدھوں کی طرح سب کی فوٹیج کلیکٹ کرتا رہا پر یہاں تو پورا سِین ہی الٹا تھا۔۔۔" وہ ایموشنل ہی ہوگیا بولتے بولتے،دوسری طرف زبرین راکنگ چئیر پر گھومتے ہوئے اس بےوقوف میجر کو دیکھ رہا تھا جو ہر دم اسکے صبر کا امتحان لیتا رہتا تھا۔ "یہ بات میں پھر ریپیٹ کرونگا لڑکے۔۔۔۔کہ طاہر علوی کو لازمی تم پر شک ہوتا جسکی وجہ سے ہوسکتا تھا کہ وہ تمہیں کڈنیپ کر کے سب اگلواسکتا تھا اور میں صرف تمہاری بےوقوفی پر اپنا پلین خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔" اب کے زبرین نے آنکھیں موندے کوفت سے کہا تو تیمور منہ بناتے ہوئے اسے دیکھنے لگا، "پر سر۔۔۔۔پھر آپ نے ان لوگوں سے بھی کیوں نہیں چھپایا۔۔۔۔" اس نے ان افسران کی طرف اشارہ کر کے شکایتی لہجے میں کہا تو زبرین نے صبر کے گھونٹ پیتے ہوئے اپنی جیب میں رکھی پسٹل دیکھی،پھر سامنے کھڑے اس میجر کو جو روٹھی بیویوں کی طرح اسکے ساتھ برتاؤ کررہا تھا۔ "سر۔۔۔۔بہت کوشش کر کے دیکھ لی۔۔۔۔پر وہ لڑکی منہ نہیں کھول رہی اپنا۔۔۔" ابھی وہ تیمور کو کچھ بولتا کہ مس ہما نے وہاں آتے ہوئے کہا،انکی بات پر زبرین کی پیشانی پر شکنیں بڑھی تھیں۔ "ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔۔۔" انہیں بول کر وہ اٹھا تھا ساتھ ہی وہاں سے نکل کر ٹورچر سیل کی طرف گیا،تیمور بھی اب اپنی ناراضگی بھلائے جلدی سے اسکے پیچھے گیا تھا،پر وہاں آکر جب اسکی نظر نتاشہ پر پڑی تو بےساختہ تیمور نے نگاہ ہٹائی تھی اس پر سے،خون سے لت پت وہ نیچے نیم بےہوش پڑی ہوئی تھی،ڈنڈے سے بری طرح مارنے کی وجہ سے اسکے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے جن میں صاف کٹ کے نشان دکھ رہے تھے، "تم باہر جاؤ۔۔۔" سرد لہجے میں زبرین نے کہا تو تیمور خاموشی سے باہر نکلا۔ اسکے جانے کے بعد زبرین ایک گٹھنے پر جھکا تھا پھر اسکے اوندھے وجود کو کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا،جس پر نتاشہ جو کہ نیم غنودگی میں ہی تھی،اسکے منہ سے کراہنے کی آواز نکلی،درد سے جیسے پورا بدن ٹوٹ رہا تھا،ہما نے اسکا چہرہ بھی نہیں بخشا تھا،منہ اور ناک سے خون نکل رہا تھا تو گالوں پر الگ کٹ کے نشان نمایاں تھے۔ "چچچہ۔۔۔۔زیادہ تو نہیں لگی ڈارلنگ۔۔۔۔" زبرین نے ہمدردی سے پوچھا ساتھ ہی اسکے بالوں پر ہاتھ رکھ کر آہستگی سے نتاشہ کا چہرہ اپنے چہرے سے قریب ترین کرلیا،ہیزل رنگ آنکھیں کھولنے پر مقابل کی سرد کالی آنکھیں دکھیں تو نتاشہ نے بمشکل اپنی سسکی دبائی،چہرے پر ہوتی تکلیف کی وجہ اس سے اب رویا بھی نہیں جارہا تھا۔ "میں ڈانٹوں گا ہما کو۔۔۔۔ایسے بھی کوئی مارتا ہے۔۔۔۔کیا حال ہوگیا میری کیوٹی پائی کا۔۔۔۔پر اس میں غلطی تمہاری بھی ہے نا میری جان۔۔۔۔اگر تمیز سے پوچھنے پر پاسورڈ بتادیتی تو وہ بھی نہیں مارتی تمہیں۔۔۔۔" وہ اسکے گال پر نرمی سے اپنا دوسرا ہاتھ پھیرتا ہوا بول رہا تھا،جبکہ اسکا ہاتھ گال پر لگے کٹ پر محسوس کرکے نتاشہ نے دانت پر دانت جمائے خود کو چیخنے سے روکا تھا۔ "چلو کوئی بات نہیں۔۔۔ایسا کرو۔۔۔مجھے بتادو۔۔۔کیا ہے لاکر کا پاسورڈ۔۔چلو جلدی سے بتاؤ میری جان۔۔۔" اب وہ لہجے میں بےانتہا پیار سموئے پوچھنے لگا "مجھ۔۔۔مجھے۔۔۔نہیں پتا۔۔۔۔میں۔۔۔سچ کہہ رہی۔۔۔ہوں۔۔کچھ۔۔۔نہیں۔۔۔پتا۔۔" زبان بری طرح لڑکھڑانے کے باعث وہ بمشکل ہی بول پائی پر اسکا بولنا تھا کہ زبرین کے تاثرات بدلے،جو ہاتھ پہلے نرمی سے اسکے بالوں پر رکھا تھا اب انہیں سے بالوں کو جکڑلیا گیا تھا،درد سے نتاشہ نے لب بھینچے تھے۔ "کہتے ہیں انسان صرف دو حالت میں ہی سچ بولتا ہے۔۔۔ایک نشے کی حالت اور دوسرا غصہ۔۔۔۔اور دو دن پہلے تم نے غصے کی حالت میں ہی یہ بات قبول کی تھی کہ تمہیں پاسورڈ کے علاؤہ بھی کافی کچھ معلوم ہے۔۔۔۔تو ابھی جھوٹ مت بولو۔۔۔۔ورنہ اس سے بھی زیادہ قابلِ رحم حشر ہوگا تمہارا۔۔۔۔" اسکے بالوں پر گرفت سخت کرتے ہوئے وہ پھنکارا تھا،جبکہ نتاشہ اب پچھتارہی تھی اپنی اس بات پر،اسے نہیں پتا تھا کہ صرف غصے میں نکالی گئی بھڑاس اسکے لیے مصیبت بن جائے گی۔ "میں۔۔۔جھوٹ نہیں۔۔۔بول رہی۔۔۔ادیان یقین کریں۔۔۔" ہچکیوں سمیت بولتے ہوئے نتاشہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا پر اس سے پہلے ہی زبرین اسے نیچے پھینکتے ہوئے اٹھا تھا۔ "تو تم چاہتی ہو۔۔۔۔تھوڑی اور توازہ کی جائے تمہاری۔۔۔ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔۔۔پر زبان تو کھولنی پڑے گی تمہیں نتاشہ علوی۔۔۔" اسکے وجود کو ناگواری سے دیکھتے ہوئے وہ بولا تھا ساتھ ہی اسکے زمین پر رکھے ہاتھ پر اپنے بوٹ سے دباؤ ڈالتا ہوا ٹورچر سیل سے نکلا،وہ ٹھنڈے ماربل پر پڑی سینے میں زمانے بھر کی اذیت بھرے اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی،جو اسے ناجانے کس غلطی کی سزائیں دے رہی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments